کوئی وظیفہ مجھے بھی بتا ' مِرے درویش !
تجھے ہوئی ہے فقیری عطا 'مِرے درویش !
میں دل سے کہہ رہی تھی "باز آ مَحبّت سے"
وہ ہاتھ جوڑے ہوئے رو پڑا ' مِرے درویش !
مری خطا تو بس اتنی ہے اس تعلّق میں
یہی کہ ہونی کو ہونے دیا ' مِرے درویش !
اسے میں پیار مَحبّت کا نام کیسے دوں؟
یہ اور طرح کا ہے تجربہ ' مِرے درویش !
کہ جس نے باندھ دیا تیری ذات سے مجھ کو
یہ روح کا ہے کوئی سلسلہ ' مِرے درویش !
ہر ایک سانس جُڑی ہے تری رضا کے ساتھ
تو کیا یہی ہے مکمّل وفا ؟ مِرے درویش !
نکالنی ہے ابھی اس سے فال بھی اپنی
کہ تیرا عشق ہے آیت نما ' مِرے درویش !
تُو زندگی کا ستارہ بھی ' استعارہ بھی
مِرے لیے ہے تُو سورج نما ' مِرے درویش !
یہ تیرا عشق مہَکتا ہے رات دن مجھ میں
کہ اور کچھ نہیں مجھ میں نیا مِرے درویش !
تمہارے دھیان کی خوشبُو سے نیند ٹوٹ گئی
تو پھر یہی تھی مہَک جا بَہ جامِرے درویش !
کہ اب وجود سے، موجود سے نہیں ہے غرض
ہے لا وجود کی مجھ میں صدا مِرے درویش !